حدیث 4: انسان کی تخلیق، تقدیر اور انجام
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نُطْفَةً، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَٰلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَٰلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَأَجَلِهِ، وَعَمَلِهِ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ...
یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے رحم میں چالیس دن نطفہ کے طور پر کی جاتی ہے، پھر اتنے ہی دنوں میں جما ہوا خون، پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے، پھر فرشتہ بھیجا جاتا ہے، جو اس میں روح پھونکتا ہے، اور چار باتیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے: رزق، عمر، عمل، اور یہ کہ وہ خوش نصیب ہوگا یا بدبخت۔
(صحیح البخاری، حدیث: 3208 | صحیح مسلم)
حدیث کا پس منظر
یہ حدیث انسان کی تخلیق، تقدیر اور انجام کے بارے میں جامع علم فراہم کرتی ہے۔ اسلام میں عقیدۂ تقدیر ایمان کا لازمی جز ہے اور یہ حدیث اسی پر روشنی ڈالتی ہے۔
اہم نکات
- تخلیق: انسان کا جسمانی ارتقاء رحمِ مادر میں تین مراحل میں ہوتا ہے۔
- روح: چالیس چالیس دن کے بعد فرشتہ روح پھونکتا ہے۔
- چار چیزیں لکھی جاتی ہیں: رزق، عمر، اعمال، اور انجام (جنت یا دوزخ)۔
- انجام کا علم صرف اللہ کو ہے، اس لیے عمل کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔
فقہی و عملی پہلو
- اسلام میں روح پھونکنے کا مرحلہ حمل کے تقریباً 120 دن بعد ہوتا ہے۔
- یہ حدیث اسقاطِ حمل (abortion) کے شرعی مسائل میں اہم بنیاد ہے۔
- تقدیر پر ایمان ہمیں عاجزی اور اللہ پر بھروسہ سکھاتا ہے۔
سبق
زندگی اور موت، رزق اور انجام سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر انسان کا فرض ہے کہ نیک عمل کرے، کیونکہ وہی اس کی نجات کا سبب بنیں گے۔
خلاصہ
انسان کی تخلیق اللہ کی قدرت کی نشانی ہے۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے انجام کا علم اللہ کے پاس ہے، مگر ہمیں نیک عمل کی راہ نہیں چھوڑنی چاہیے۔

0 Comments