سورۃ الفاتحہ کے مضامین کا خلاصہ

تعارف سورۃ الفاتحہ

📖 تعارف سورہ فاتحہ

تعارف سورہ فاتحہ
سورہ فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے، بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو کمل طور پر نازل ہوئی ، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے منشا بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو، اسے سب سے پہلے اپنے خالق و مالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے ؛ چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا انگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟

آیات: 7
رَكُوعُهَا سُورَةُ الْفَاتِحَةِ مَكِّيَّةٌ
رکوع: 1
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصَّانِينَ

اس کی سورۃ کا نام سورہ فاتحہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس سے قرآن کریم کا افتتاح ہے۔ اور آغاز ہوا یہ سورت تین بنیادی اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہے، اس اعتبار سے اسے قرآن کریم کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ تین بنیادی تعلیمات یہ ہیں : توحید (۱) رسالت (۲) (۳) قیامت پہلی دو آیات میں توحید کا ذکر ہے، پانچویں اور چھٹی آیت میں نبوت در سالت کی جانب اشارہ ہے، جب کہ تیسری آیت میں قیامت کا مضمون ہے۔ ابتدائی تین آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کی بقا، اُس کی زندگی ، اُس کے لیے پیدا کرده اسباب راحت و آرام سب اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور اس کی عمدہ پرورش کے نتیجے میں ہے، اگر یہ رحمت ور بوبیت نہ ہوتی تو اس کا دنیا میں ایک لمحہ گزارنا بھی ا ممکن تھا ، لہذا اُن انعامات کے نتیجے میں انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر طرح کی حمد و تعریف کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو مجھے ، نیز ظاہری اسباب کے نتیجے میں ہونے والی دنیا کی کوئی بھی تعریف در حقیقت اللہ ہی کی حمد و ثناء ہے جو اُن اسباب حمد کو پیدا کرنے والا ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی ہدایت کی درخواست ہے، اور پورا قرآن کریم پھر اسی درخواست کا نتیجہ ہے، گویا اولا دعا ہے، اور آگے آنے والی تعلیمات و احکامات جواب دعا ہیں، جن پر چل کر انسان راہ راست و پا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں یعنی انبیائے کرام ، صحابہ عظام اور اولیاء اللہ کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔

اہم مسائل

مسئلہ قرآن کی تلاوت شروع کرنے کے وقت اول أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرحيم اور پر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھنا سنت ہے، اور درمیان تلاوت بھی سورہ برات کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بس اللہ پڑھنا سنت ہے۔
مسئلہ پہلی رکعت کے شروع میں اعوذ باللہ کے بعد پسر اللہ پڑھنا با تفاق ائمہ مسنون ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ آواز سے پڑھا جائے یا آہستہ، امام اعظم ابوحنیفہ اور بہت سے دوسرے ائمہ آہستہ پڑھنے کو تریح دیتے ہیں۔
پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعتوں کے شروع میں بھی بنی اللہ پڑھنا چاہیے، اس کے مسنون ہونے پر سب کا اتفاق ہے، اور بعض روایات میں ہر رکعت کے شروع میں بسیم اللہ پڑھنے کو واجب کہا گیا ہے۔ (معارف بحوالہ شرح منیہ)
مسئلہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت شروع کرنے سے پہلے امام اور منفرد کے لیے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے۔

Post a Comment

0 Comments